جگر مراد آبادی شعری

دوره مقدماتی php
جگر مراد آبادی شعری
جگر مراد آبادی شعری

1890 – 1960
|
مراد آباد, ہندوستان

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

Sign up and enjoy FREE unlimited access to a whole Universe of Urdu Poetry, Language Learning, Sufi Mysticism, Rare Texts

جگر مراد آبادی شعری

دوره مقدماتی php

52.7KFavorite

باعتبار

ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا

مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں

کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل

ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں

ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا

اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا

کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم

ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن

زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

جگر مراد آبادی شعری

کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے

ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے

عشق جب تک نہ کر چکے رسوا

آدمی کام کا نہیں ہوتا

till love does not cause him disgrace

in this world man has no place

آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں

جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں

آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے

جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

  • عکس اسامی کشته شدگان سیل شیراز
  • مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

    مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

    آتش عشق وہ جہنم ہے

    جس میں فردوس کے نظارے ہیں

    یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر

    جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں

    آدمی آدمی سے ملتا ہے

    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا

    ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں

    جگر مراد آبادی شعری

    آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجیے

    گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے

    دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہے ہمیں

    کتنی ظالم ہے تیری انگڑائی

    پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب

    کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں

    حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو

    یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے

    یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے

    کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

    بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر

    وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے

    ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے

    مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے

    دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

    اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

    اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

    فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

    میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر

    پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے

    کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ

    میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا

    where does lightening strike, priest, let us look

    I will raise my glass you raise your holy book

    دل ہے قدموں پر کسی کے سر جھکا ہو یا نہ ہو

    بندگی تو اپنی فطرت ہے خدا ہو یا نہ ہو

    کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام

    آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

    اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس

    درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

    زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ

    موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

    سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی

    مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے

    اسی کو کہتے ہیں جنت اسی کو دوزخ بھی

    وہ زندگی جو حسینوں کے درمیاں گزرے

    نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے

    ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے

    ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں محال

    انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا

    ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل

    کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا

    درد و غم دل کی طبیعت بن گئے

    اب یہاں آرام ہی آرام ہے

    the heart is accustomed to sorrow and pain

    in lasting comfort now I can remain

    ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری

    کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی

    گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد

    یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے

    آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر

    ایک تنہا آدمیت ہی نہیں

    کچھ کھٹکتا تو ہے پہلو میں مرے رہ رہ کر

    اب خدا جانے تری یاد ہے یا دل میرا

    ہائے رے مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں

    عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیا کریں

    ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے

    رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے

    سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے

    اور جگرؔ کو شراب نے مارا

    دل گیا رونق حیات گئی

    غم گیا ساری کائنات گئی

    اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک

    ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے

    ” + data.records[i][“Description”].substring(0, 100) + ‘…’ + “

    By ” + data.records[i][“Auhtor Name”] + ” | ” + dateWithFullMonthName + ”

    ” + data.records[i][“Description”].substring(0, 100) + ‘…’ + “

    By ” + data.records[i][“Auhtor Name”] + ” | ” + dateWithFullMonthName + ”

    The best way to learn Urdu online

    Online Treasure of Sufi and Sant Poetry

    World of Hindi language and literature

    A three-day celebration of Urdu

    1890 – 1960
    |
    مراد آباد, ہندوستان

    ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

    ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

    Sign up and enjoy FREE unlimited access to a whole Universe of Urdu Poetry, Language Learning, Sufi Mysticism, Rare Texts

    جگر مراد آبادی شعری

    ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں

    ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

    ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا

    مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

    یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے

    اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

    جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

    وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

    ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

    میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

    اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل

    ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

    جگر مراد آبادی شعری

    تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں

    ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا

    ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن

    زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

    عشق جب تک نہ کر چکے رسوا

    آدمی کام کا نہیں ہوتا

  • عکس های زیبا از کشور اسرائیل
  • till love does not cause him disgrace

    in this world man has no place

    till love does not cause him disgrace

    in this world man has no place

    مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

    مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

    جگر مراد آبادی شعری

    یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر

    جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں

    دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہے ہمیں

    کتنی ظالم ہے تیری انگڑائی

    ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں محال

    انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا

    ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل

    کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا

    صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ

    حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

    اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا

    کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

    محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے

    کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

    دل کو سکون روح کو آرام آ گیا

    موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا

    لے کے خط ان کا کیا ضبط بہت کچھ لیکن

    تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں نے بھرم کھول دیا

    جہل خرد نے دن یہ دکھائے

    گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے

    ” + data.records[i][“Description”].substring(0, 100) + ‘…’ + “

    By ” + data.records[i][“Auhtor Name”] + ” | ” + dateWithFullMonthName + ”

    ” + data.records[i][“Description”].substring(0, 100) + ‘…’ + “

    By ” + data.records[i][“Auhtor Name”] + ” | ” + dateWithFullMonthName + ”

    The best way to learn Urdu online

    Online Treasure of Sufi and Sant Poetry

    World of Hindi language and literature

    A three-day celebration of Urdu

    جگر مرادآبادی کا اصل نام علی سکندر اور تخلص جگر تھا۔ بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر مراداباد میں پیدا ہوئے اور اسی لیے مرادآبادی کہلائے۔ اردو کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ آپ 6 اپریل1890ء کو مرادآباد میں پیدا ہوئے۔ آپ بیسویں صدی کے اردو کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ نظموں کو جمع کرنے پر ایوارڈ ملا۔ آپ کم عمر میں ہی اپنے والد سے محروم ہو گئے اور آپ کا بچپن آسان نہیں تھا۔ آپ نے مدرسے سے اردو اور فارسی سیکھی۔ شروع میں آپ کے شاعری کے استاد رسہ رامپوری تھے۔ آپ غزل لکھنے کے ایک اسکول سے تعلق رکھتے تھے۔ بلا کے مے نوش تھے مگر بڑھا پے میں تا ئب ہو گئے تھے -آپ کا 9 ستمبر 1960ء کو انتقال ہو گیا۔گوندا میں ایک رہائشی کالونی کا نام آپ کے نام پر ‘جگر گنج ‘ رکھا گیا ہے۔ وہاں ایک اسکول کا نام بھی آپ کے نام پر جگر میموریل انٹر کالج رکھا گیا ہے۔

    جگر مرادآبادی اردو شاعری کے چمکتے ستاروں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی شاعری ان کی رنگارنگ شخصیت،رنگ تغزّل اور نغمہ و ترنم کی آمیزش کا نتیجہ ہے جس نے انہیں اپنے زمانے بے حد مقبول اور ہردلعزیز بنا دیا تھا۔[1] جگر کوشاعری کا ذوق بچپن سے ہی تھا کیونکہ والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے اور بے حد مقبول تھے۔
    ان کا دیوان کلیات جگر کے نام سے بازار میں دستیاب ہے جو ان کی غزلوں، نظموں قصائد و قطعات کا مجموعہ ہے۔ اس دیوان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا دیباچہ آل احمد سرور نے لکھا ہے جنہوں نے کلیات کا عکس اتار کر رکھ دیا ہے۔

    آل احمد سرور کہتے ہیں:

    جگر کو مرزا غالب اور دیگر شعرا کی طرح یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں اور برسوں گزر جانے کے بعد ہیں زبان پر تازہ رہتے ہیں۔ مثلاً

    یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
    اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

    جگر مراد آبادی شعری

    کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی

    بھجا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی

    صداقت ہو تو دل سینے سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ

    حقیقت خود کو منوالیتی ہے مانی نہیں جاتی

    چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کرمٹے جاتے ہیں گرگرکر

    حضورِ شمع پروا نوں کی نادانی نہیں جاتی

    وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آ ہٹ تک نہیں ہوتی

    وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی

    محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے

    کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیا نی نہیں جاتی

    گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

    کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں

    آدمی آدمی سے ملتا ہے

    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں‘جو ہے فرق تجھ میں مجھ میں

    ترا درد دردِ تنہا‘مرا غم غمِ زمانہ

    مرے دل کے ٹوٹنے پر ‘ہے کسی کو ناز کیا کیا

    مجھے اے جگر مبارک‘یہ شکستِ فاتحانہ

    غزل اردو شاعری کی مقبول ترین “صنف” سخن ہے۔ غزل توازن میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع اولی میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہے غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی شعر ہی کہلاتا ہے

    غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے اس لیے اس صنفِ شعر کا یہ نام پڑا۔ غزل اس چیخ کو بھی کہا جاتا ہے جو شکار ہوتے ہوئے ہرن کے منہ سے نکلتی ہے۔ اصطلاحِ شاعری میں غزل سے مراد وہ صنفِ نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہو اور اس میں عشق وعاشقی کی باتیں بیان ہوئی ہوں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی۔ تاہم آج کل کی غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ موضوعات پر اظہارِ خیال کو روا جانا جانے لگا ہے۔ غزل کا آغاز فارسی زبان سے ہوا مگر اس کا سراغ عربی تک بھی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ عربی صنف قصیدہ میں کے تشبیب نامی حصے ہی غزل کی ابتدا ہوئی۔

    غزل کی اردو ادب میں کامیابی اور پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر دور میں اہلِ اردو کے جذبات و احساسات کا ساتھ نبھانے میں کامیاب رہی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور داخلی و خارجی اتار چڑھاؤ کے باوجود اردو شاعر کم و بیش ہر قسم کے تجربات کامیابی سے غزل میں بیان کرتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سی اصناف مثلاً قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی وغیرہ رفتہ رفتہ قبولِ عام کے درجے سے گر گئیں مگر غزل اپنی مقبولیت کے لحاظ سے ہنوز وہیں کی وہیں ہے۔
    اردو غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس نے اس کو باقاعدہ رواج دیا ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے جن میں قلی قطب شاہ، نصرتی، غواصی اور ملا وجہی شامل ہیں۔ تاہم ولی وہ پہلا شخص ضرور تھا جس نے پہلی بار غزل میں مقامی تہذیبی قدروں کو سمویا۔
    غزل کی ایک قسم مسلسل غزل ہے جس میں شاعر ایک ہی خیال کو تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اقبال، حسرت موہانی اور کلیم عاجز کے یہاں تسلسل غزل کی اچھی مثالیں مل جاتی ہیں۔

    غزل اور نظم میں بنیادی دو فرق ہیں:

    فارسی اور اردو زبان میں غزل کہنے والوں میں شامل ہیں؛ حافظ شیرازی، ولی دکنی، مرزا اسد اللہ خان غالب، مير تقی میر، مومن خان مومن، داغ دہلوی، حیدرعلی آتش، جانثار اختر، خواجہ میر درد، جون ایلیا، فیض احمد فیض، احمد فراز، فراق گورکھپوری محمد اقبال، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، ساحر لدھیانوی، حسرت موہانی، مخدوم محی الدین، جگر مراد آبادی، منیر نیازی، محمد رفیع سودا، قتیل شفائی، احسان سہگل، مجروح سلطانپوری، ولی دکنی اور محمد ابراہیم ذوق۔

    جگر مراد آبادی شعری

    اہم غزلیہ گلوکار:

    گائیکی غزلوں کے لیے مشہور:

    ٭احمد سہیل (پیدائش 1953)

    – (سُرمئی دستخط – 2012)]

    محمد فائق نے ‘پسندیدہ کلام’ کی ذیل میں اس موضوع کا آغاز کیا، ‏ستمبر 9, 2016

    ناموں کو کاما سے علیحدہ کریں

    Back to: اردو ادب کے شاعر

    جگر مراد آبادی کا نام علی سکندر اور تخلص جگرؔ تھا- جگر کی پیدائش 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں ہوئی- بچپن میں بہت چھوٹی عمر میں ہی جگر مراد آبادی کے والد کا انتقال ہوگیا- اس وجہ سے اپنے بچپن میں انہیں کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا-

    جگر نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی۔ انہوں نے عربی٬ اردو اور فارسی سیکھی- ان کے شاعری کے استاد رسہ رامپوری تھے- جگر مراد آبادی ایسے شخص ہیں جنہوں نے شاعری میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے- جب بھی مشاعرے کا نام لیا جاتا ہے جگر کا نام ضرور آتا ہے۔

    جگر مراد آبادی نے بہت چھوٹی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا- تقریباً 12-13 سال کی عمر میں شاعری کے بہت زیادہ شوقین ہو گئے تھے- اور 15 سال کی عمر میں شراب کی عادت بھی اختیار کرلی-  لیکن جب عمر بڑھنے لگی تو اصغر گونڈوی کے کہنے پر یہ عادت چھوڑ دی- ان کی شاعری کے جذبہ کو اضغر گونڈوی نے بہت زیادہ بڑھاوا دیا- اور یہ جگر مراد آبادی کو اپنے قریب مانتے تھے- 9 دسمبر کو 1960ء میں گونڈہ میں آپ کا انتقال ہو گیا-

    گونڈہ کے ایک کالونی جس کا نام آپ کے نام پر رکھا گیا ہے- جسے “جگر گنج” کہتے ہیں- اور وہاں کے ایک اسکول کا نام بھی آپ کے نام پر رکھا گیا ہے جس کا نام جگر میموریل انٹر کالج ہے-

    جگر مراد آبادی شعری

     جگر جس بھی مشاعرے میں جاتے اس مشاعرے کی رونق بن جاتے تھے- جگر ہر مشاعرے کی شان کہلاتے تھے- ان نے ساری زندگی غزل گوئی کی ہے- حالانکہ انہوں نے کچھ نظمیں بھی لکھی ہیں مگر ان پر بھی غزل کا رنگ نظر آتا ہے- 

    جگر کی شاعری کا موضوع عشق و محبت اور حسن ہے- ان کی شاعری عشق پر ہی شروع ہوتی ہے اور عشق پر ختم ہوجاتی ہے- شعر ملاخطہ ہوں- 

    جگر کا پہلا مجموعہ ۶1922  میں “داغ جگر” اور ۶1932 میں دوسرا مجموعہ “شعلہ طور” اور تیسرا 1958ء میں “آتشِ گل” بہت زیادہ مشہور ہوئے۔

    جگر کو نعتیہ مشاعرہ بھی لکھنے کا موقع ملا شروع میں تو انہوں نے انکار کر دیا تھا- ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک برے انسان ہیں- شراب جیسی بری چیز ان کے اندر بسی ہے- وہ اپنے آقا کی نعت لکھنے کے قابل نہیں ہیں-لیکن پھر انہوں نے لکھنا شروع کیا اور شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا- جب ان کا نعتیہ مشاعرہ پورا ہوگیا تو یہ بے حد خوش ہوئے اور کہنے لگے۔ ہو سکتا ہے اب میرے گناہ کم ہو جائیں- لوگ ان کے نعتیہ مشاعرے کو پڑھنے کے خلاف تھے- اور جب یہ مشاعرے میں پہنچے اور لوگوں کی نظریں دیکھیں تو سہمے ہوئے دل سے یہ شعر نکلا٬ شعر ملاحظہ ہوں-

    یہ شعر سن کر لوگوں کا غصہ ختم ہوگیا اور سب خاموش رہ گئے-

    ان کے شعروں سے جو آہ نکلی وہ لوگوں کے دل میں اتر گئی اور یہ پورے مشاعرے میں چھا گئے اور زندگی بھر کے لئے اپنا مقام بنا گئے۔

    جگر ایک ایسے شاعر ہیں جن کی موت کی خبر ان کی زندگی میں دو بار اڑی۔جگر اپنے زمانے تک کے پہلے اردو شاعر تھے جنھیں پدم بھوشن کا خطاب ملا تھا۔اس کے علاوہ ان کے تیسرے مجموعہ “آتش گل” کے انجمن ترقی اردو ہند کے 1958 آڈیشن پر ساہتیہ اکیڈمی کے انعام سے بھی نوازا گیا تھا.

    Quiz On Jigar Moradabadi

    Question

    Your answer:

    Correct answer:

    You got {{SCORE_CORRECT}} out of {{SCORE_TOTAL}}

    Your Answers

    جگر مراد آبادی شعری
    جگر مراد آبادی شعری
    0

    دوره مقدماتی php

    دیدگاهتان را بنویسید

    نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *