جگر مراد آبادی کی شاعری

دوره مقدماتی php
جگر مراد آبادی کی شاعری
جگر مراد آبادی کی شاعری

1890 – 1960
|
مراد آباد, ہندوستان

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

Sign up and enjoy FREE unlimited access to a whole Universe of Urdu Poetry, Language Learning, Sufi Mysticism, Rare Texts

جگر مراد آبادی کی شاعری

دوره مقدماتی php

52.7KFavorite

باعتبار

ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا

مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں

کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل

ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں

ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا

اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا

کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم

ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن

زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

جگر مراد آبادی کی شاعری

کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے

ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے

عشق جب تک نہ کر چکے رسوا

آدمی کام کا نہیں ہوتا

till love does not cause him disgrace

in this world man has no place

آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں

جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں

آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے

جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

  • تصاویر بازیگران زن ایرانی قبل از انقلاب
  • مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

    مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

    آتش عشق وہ جہنم ہے

    جس میں فردوس کے نظارے ہیں

    یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر

    جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں

    آدمی آدمی سے ملتا ہے

    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا

    ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں

    جگر مراد آبادی کی شاعری

    آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجیے

    گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے

    دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہے ہمیں

    کتنی ظالم ہے تیری انگڑائی

    پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب

    کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں

    حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو

    یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے

    یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے

    کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

    بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر

    وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے

    ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے

    مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے

    دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

    اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

    اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

    فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

    میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر

    پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے

    کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ

    میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا

    where does lightening strike, priest, let us look

    I will raise my glass you raise your holy book

    دل ہے قدموں پر کسی کے سر جھکا ہو یا نہ ہو

    بندگی تو اپنی فطرت ہے خدا ہو یا نہ ہو

    کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام

    آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

    اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس

    درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

    زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ

    موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

    سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی

    مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے

    اسی کو کہتے ہیں جنت اسی کو دوزخ بھی

    وہ زندگی جو حسینوں کے درمیاں گزرے

    نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے

    ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے

    ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں محال

    انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا

    ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل

    کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا

    درد و غم دل کی طبیعت بن گئے

    اب یہاں آرام ہی آرام ہے

    the heart is accustomed to sorrow and pain

    in lasting comfort now I can remain

    ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری

    کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی

    گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد

    یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے

    آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر

    ایک تنہا آدمیت ہی نہیں

    کچھ کھٹکتا تو ہے پہلو میں مرے رہ رہ کر

    اب خدا جانے تری یاد ہے یا دل میرا

    ہائے رے مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں

    عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیا کریں

    ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے

    رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے

    سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے

    اور جگرؔ کو شراب نے مارا

    دل گیا رونق حیات گئی

    غم گیا ساری کائنات گئی

    اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک

    ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے

    ” + data.records[i][“Description”].substring(0, 100) + ‘…’ + “

    By ” + data.records[i][“Auhtor Name”] + ” | ” + dateWithFullMonthName + ”

    ” + data.records[i][“Description”].substring(0, 100) + ‘…’ + “

    By ” + data.records[i][“Auhtor Name”] + ” | ” + dateWithFullMonthName + ”

    The best way to learn Urdu online

    Online Treasure of Sufi and Sant Poetry

    World of Hindi language and literature

    A three-day celebration of Urdu

    1890 – 1960
    |
    مراد آباد, ہندوستان

    ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

    ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

    Sign up and enjoy FREE unlimited access to a whole Universe of Urdu Poetry, Language Learning, Sufi Mysticism, Rare Texts

    جگر مراد آبادی کی شاعری

    ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں

    ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

    ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا

    مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

    دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں

    کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

    آئینہ سکندر

    حیات جگر

    1979

    آتش گل

     

    1985

    آتش گل

     

    1967

    آتش گل

     

     

    آتش گل

     

    1958

    آتش گل

     

    1972

    جگر مراد آبادی کی شاعری

    آتش گل

     

     

    آتش گل

     

     

    آتش گل

     

    2012

    آتش گل

  • مدل ابرو پهن اسپرت
  •  

     

    اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل_دل
    ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

    یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
    اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

    یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
    جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں

    آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
    جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں

    تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم_جاناں
    اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے

    اک لفظ_محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
    سمٹے تو دل_عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

    دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
    اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

    عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
    ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میںجگر مراد آبادی کی شاعری

    بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر
    وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے

    آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
    جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں

    ” + data.records[i][“Description”].substring(0, 100) + ‘…’ + “

    By ” + data.records[i][“Auhtor Name”] + ” | ” + dateWithFullMonthName + ”

    ” + data.records[i][“Description”].substring(0, 100) + ‘…’ + “

    By ” + data.records[i][“Auhtor Name”] + ” | ” + dateWithFullMonthName + ”

    The best way to learn Urdu online

    Online Treasure of Sufi and Sant Poetry

    World of Hindi language and literature

    A three-day celebration of Urdu

    جگر مرادآبادی کا اصل نام علی سکندر اور تخلص جگر تھا۔ بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر مراداباد میں پیدا ہوئے اور اسی لیے مرادآبادی کہلائے۔ اردو کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ آپ 6 اپریل1890ء کو مرادآباد میں پیدا ہوئے۔ آپ بیسویں صدی کے اردو کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ نظموں کو جمع کرنے پر ایوارڈ ملا۔ آپ کم عمر میں ہی اپنے والد سے محروم ہو گئے اور آپ کا بچپن آسان نہیں تھا۔ آپ نے مدرسے سے اردو اور فارسی سیکھی۔ شروع میں آپ کے شاعری کے استاد رسہ رامپوری تھے۔ آپ غزل لکھنے کے ایک اسکول سے تعلق رکھتے تھے۔ بلا کے مے نوش تھے مگر بڑھا پے میں تا ئب ہو گئے تھے -آپ کا 9 ستمبر 1960ء کو انتقال ہو گیا۔گوندا میں ایک رہائشی کالونی کا نام آپ کے نام پر ‘جگر گنج ‘ رکھا گیا ہے۔ وہاں ایک اسکول کا نام بھی آپ کے نام پر جگر میموریل انٹر کالج رکھا گیا ہے۔

    جگر مرادآبادی اردو شاعری کے چمکتے ستاروں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی شاعری ان کی رنگارنگ شخصیت،رنگ تغزّل اور نغمہ و ترنم کی آمیزش کا نتیجہ ہے جس نے انہیں اپنے زمانے بے حد مقبول اور ہردلعزیز بنا دیا تھا۔[1] جگر کوشاعری کا ذوق بچپن سے ہی تھا کیونکہ والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے اور بے حد مقبول تھے۔
    ان کا دیوان کلیات جگر کے نام سے بازار میں دستیاب ہے جو ان کی غزلوں، نظموں قصائد و قطعات کا مجموعہ ہے۔ اس دیوان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا دیباچہ آل احمد سرور نے لکھا ہے جنہوں نے کلیات کا عکس اتار کر رکھ دیا ہے۔

    آل احمد سرور کہتے ہیں:

    جگر کو مرزا غالب اور دیگر شعرا کی طرح یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں اور برسوں گزر جانے کے بعد ہیں زبان پر تازہ رہتے ہیں۔ مثلاً

    یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
    اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
    جگر مراد آبادی کی شاعری

    کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی

    بھجا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی

    صداقت ہو تو دل سینے سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ

    حقیقت خود کو منوالیتی ہے مانی نہیں جاتی

    چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کرمٹے جاتے ہیں گرگرکر

    حضورِ شمع پروا نوں کی نادانی نہیں جاتی

    وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آ ہٹ تک نہیں ہوتی

    وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی

    محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے

    کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیا نی نہیں جاتی

    گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

    کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں

    آدمی آدمی سے ملتا ہے

    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں‘جو ہے فرق تجھ میں مجھ میں

    ترا درد دردِ تنہا‘مرا غم غمِ زمانہ

    مرے دل کے ٹوٹنے پر ‘ہے کسی کو ناز کیا کیا

    مجھے اے جگر مبارک‘یہ شکستِ فاتحانہ

    غزل اردو شاعری کی مقبول ترین “صنف” سخن ہے۔ غزل توازن میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع اولی میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہے غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی شعر ہی کہلاتا ہے

    غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے اس لیے اس صنفِ شعر کا یہ نام پڑا۔ غزل اس چیخ کو بھی کہا جاتا ہے جو شکار ہوتے ہوئے ہرن کے منہ سے نکلتی ہے۔ اصطلاحِ شاعری میں غزل سے مراد وہ صنفِ نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہو اور اس میں عشق وعاشقی کی باتیں بیان ہوئی ہوں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی۔ تاہم آج کل کی غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ موضوعات پر اظہارِ خیال کو روا جانا جانے لگا ہے۔ غزل کا آغاز فارسی زبان سے ہوا مگر اس کا سراغ عربی تک بھی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ عربی صنف قصیدہ میں کے تشبیب نامی حصے ہی غزل کی ابتدا ہوئی۔

    غزل کی اردو ادب میں کامیابی اور پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر دور میں اہلِ اردو کے جذبات و احساسات کا ساتھ نبھانے میں کامیاب رہی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور داخلی و خارجی اتار چڑھاؤ کے باوجود اردو شاعر کم و بیش ہر قسم کے تجربات کامیابی سے غزل میں بیان کرتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سی اصناف مثلاً قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی وغیرہ رفتہ رفتہ قبولِ عام کے درجے سے گر گئیں مگر غزل اپنی مقبولیت کے لحاظ سے ہنوز وہیں کی وہیں ہے۔
    اردو غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس نے اس کو باقاعدہ رواج دیا ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے جن میں قلی قطب شاہ، نصرتی، غواصی اور ملا وجہی شامل ہیں۔ تاہم ولی وہ پہلا شخص ضرور تھا جس نے پہلی بار غزل میں مقامی تہذیبی قدروں کو سمویا۔
    غزل کی ایک قسم مسلسل غزل ہے جس میں شاعر ایک ہی خیال کو تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اقبال، حسرت موہانی اور کلیم عاجز کے یہاں تسلسل غزل کی اچھی مثالیں مل جاتی ہیں۔

    غزل اور نظم میں بنیادی دو فرق ہیں:

    فارسی اور اردو زبان میں غزل کہنے والوں میں شامل ہیں؛ حافظ شیرازی، ولی دکنی، مرزا اسد اللہ خان غالب، مير تقی میر، مومن خان مومن، داغ دہلوی، حیدرعلی آتش، جانثار اختر، خواجہ میر درد، جون ایلیا، فیض احمد فیض، احمد فراز، فراق گورکھپوری محمد اقبال، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، ساحر لدھیانوی، حسرت موہانی، مخدوم محی الدین، جگر مراد آبادی، منیر نیازی، محمد رفیع سودا، قتیل شفائی، احسان سہگل، مجروح سلطانپوری، ولی دکنی اور محمد ابراہیم ذوق۔
    جگر مراد آبادی کی شاعری

    اہم غزلیہ گلوکار:

    گائیکی غزلوں کے لیے مشہور:

    ٭احمد سہیل (پیدائش 1953)

    – (سُرمئی دستخط – 2012)]

    محمد فائق نے ‘پسندیدہ کلام’ کی ذیل میں اس موضوع کا آغاز کیا، ‏ستمبر 9, 2016

    ناموں کو کاما سے علیحدہ کریں

    عاقب چشتی/اسٹار نیوز ٹوڈے/کیسریا مشرقی چمپارن

    جھوٹی ہے ہر ایک مسرت۔روح اگر تسکین نہ پاٸے

    جگر مراد آبادی کا اصل نام علی سکندر تھا اور وہ 6 اپریل 1890ء کومراد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 13 سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا۔ ابتدا میں داغ دہلوی اور منشی امیر اللہ خاں تسلیم لکھنوی کے شاگرد ہوئے اور پھر اصغر گونڈوی کے فیضان سخن حاصل کیا۔ ان کے کلام میں حسن و عشق اور کیف و سرور اتنا رچا ہوا تھا اور ترنم اس درجہ والہانہ دل دوز تھا کہ پورے برصغیر کے مقبول ترین شاعر کہلائے۔ ان کی شاعری کے تین مجموعے داغ جگر، شعلہ طور اور آتش گل ان کی یادگار ہیں۔جگر مراد آبادی نے 9 ستمبر 1960ء کو گونڈہ میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ مذکورہ باتیں بزم اردو اساتذہ کے زیر اہتمام ایک شام جگرمرادآبادی کے نام منعقدہ نششت میں کہیں۔اور مزید بتایا کہ بیسویں صدی کے نصف اول میں مقبول ہونے والے ایک بڑے شاعر حضرت جگر مراد آبادی ہیں۔ آپ کو رئیس المتغزلین اور شہنشاہِ غزل بھی کہا جاتا ہے۔جگر کو عموماً بھارت کا سب سے بڑا شراب نوش شاعر کہا جاتا ہے۔ سستی اور گھٹیا قسم کی شراب انھوں نے اس کثرت سے پی کہ اس کی نظیر ادبیات کی تاریخ میں نہ ملے گی۔ پھر رفتہ رفتہ ان کا دل توبہ کی طرف مائل ہوا۔ طبیعت شراب سے بے زار رہنے لگی اور دل میں یہ بات آئی کہ کسی اللہ والے کے ہاتھ پر شراب خانہ خراب سے توبہ کی جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے خواجہ عزیز الحسن مراد آبادی سے مشورہ کیا۔ خواجہ عزیز الحسن مراد آبادی جگر کے گہرے دوست تھے۔ مشاعروں میں بھی جگر کے ساتھ شریک ہوتے۔ بڑے باکمال اور قادرالکلام شاعر تھے۔ عشقِ حقیقی کے قائل تھے اور مجاز کے پردے میں حقیقت بیان کرتے۔ خواجہ صاحب کا تخلص ”مجذوب” تھا۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ”کشکولِ مجذوب” کے نام سے طبع ہو چکا ہے۔ جبکہ صبا چمپارنی نے کہا کہ علی سکندرجگرمرادآبادی کاشماراردو کےاہم اور مقبول شعرا میں ہوتا ہے۔ان کی شاعری نے عوام کے دلوں میں اس طرح گھر کرلیاتھا کہ پھر انہوں نے شاعری کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ جگرکی شاعری عشق سے عبارت ہے۔ وہ عشق سے شروع ہوکرعشق پرختم ہوتی ہے۔اس لیے وہ کہتے ہیں۔ یہ عشق نہیں آساں بس اتناسمجھ لیجے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے وہ ادائےدلبری ہوکہ نوائے عاشقانہ جودلوں کوفتح کرلے وہی فاتح زمانہ جس کے بعدوہ داغ دہلوی کے شاگردبن گئے.ان کے ابتدائی کلام میں داغ کارنگ نمایاں ہے۔پھرانھوں نے اپنامخصوص لب ولہجہ اختیارکیا۔جگرکے تین شعری مجموعے”داغ جگر”،”آتش گل”،اور”شعلۂ طور”شائع ہوئےہیں۔”آتش گل” کو 1958ء میں ساہتیہ اکاڈمی دہلی نے ایوارڈسےنوازا۔ جگرمرادآبادی نے ابتدائے شباب سے ہی شاعری اور شراب نوشی شروع کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ جگرصاحب برصغیر پاک و ہند میں اپنی انہی دوباتوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ شاعر ایسے تھے کہ ان کا کلام عشق و محبت کا سچا آئینہ دار شمار ہوتا۔ بلا کے مے نوش تھے مگر بڑھا پے میں تا ئب ہو گئے تھے -گونڈہ میں ایک رہائشی کالونی کا نام آپ کے نام پر ‘جگر گنج ‘ رکھا گیا ہے۔ وہاں ایک اسکول کا نام بھی آپ کے نام پر جگر میموریل انٹر کالج رکھا گیا ہے۔ اور مولانا سعیداحمد قادری نے کہا کہ جگر مرادآبادی کا شمار بر صغیر کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے ۔ وہ وقت کی نزاکتوں کو بھلی بھانتی سمجھتے تھے۔ تمام بحور پر انھیں عبور حاصل تھا۔ اس ضمن میں ایک واقعہ کا تذکرہ کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے کہ جگرصاحب نے اپنے ایک دوست کے اصرار پر کاردار فلم کمپنی سے فلمی گانے لکھنے کا معاہدہ کرلیا۔ معاہدہ یہ تھا کہ جگرصاحب دس غزلیں دیں گے اور فی غزل ایک ہزار روپیہ معاوضہ مل جائے گا۔ 10 ہزار روپے اُس زمانہ میں خاصی بڑی رقم تھی۔ فلم کمپنی کے ذمے دار نے بات پکی کرنے کی غرض سے انھیں 5 ہزار روپیہ پیشگی دے دیا۔ جگرصاحب نے رقم وصول کر لی اور گھر آگئے۔ لیکن اُسی رات انھوں نے ایک خواب دیکھا کہ غلاظت کا ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے جس پر ایک شیر بیٹھا ہے۔ پہاڑ کے دامن میں بہت سے لوگ جمع ہیں۔ وہ شیر وقفے وقفے سے اپنے دونوں پنجوں سے غلاظت اچھال رہا ہے۔ لوگ اُس غلاظت سے اپنا دامن بھر رہے ہیں۔ شیر کا جسم اور لوگوں کے کپڑے سب غلاظت سے آلودہ ہیں۔ اسی اثنا میں جگر کی آنکھ کھل گئی۔ سانس ابتر تھی اور ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ صبح ہوئی تو جگرصاحب نے روپیہ فلم کمپنی کو واپس کردیا اور آیندہ فلمی گانے لکھنے سے توبہ کرلی۔ان کا ایک مشہور شعر پیش خدمت ہے۔ درد غم حیات سے گھبرا نہ اے جگر ایسی بھی کوٸ شب ہے کہ جسکی سحر نہ ہو جبکہ نظامت کے فرائض عاقب چشتی نے انجام دیٸے۔اور اس موقع سے احمد ضیا,احسن چمپارنی,اشفاق عالم,زفیر عالم,مولانا عبدالعزیز ,نظرعالم مصباحی,مولانا طیب علی,ڈاکٹر رٸیس احمد خان,ڈاکٹر شاداب خان,انور رضا عرف موتی خان سمیت متعدد معزز افراد نے شرکت کی۔

    © 2020 DailyHunt Privacy Policy

    شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی عبدالرشید شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی کا نام شیخ محمد علی سکندر اور جگر تخلص تھا۔ والد کا نام نظر علی تھا جو خود اچھے شاعر تھے۔اس زمانے کے جانے مانے شعرا میں ان کا شمار ہوتا تھا اور ان کا ایک دیوان بھی شائع ہوا تھا۔ پروفیسر وہاب اشرفی اور پروفیسر سیدہ جعفر نے اپنی تصنیف میں جگر کو پدم بھوشن یافتہ بھی قرار دیا۔
    (بحوالہ’ تاریخ ادب اردو‘ (جلد سوم): وہاب اشرفی، ص: ۱۴۶۳۔۱۴۶۱، تاریخ ادب اردو (جلد چہارم) سیدہ جعفر، ص: ۲۵۳ )کچھ نظریوں اور صحف و کتب کے مطابق انسان پر ایسا وقت آتا ہے کہ اس کے اندر کوئی ایسی قابل ذکر شے نہیں ہوتی جس کے سبب اسے یاد کیا جائے۔ تاہم پیدائش کے وقت ماں باپ اور اعزہ و اقربا چند لمحوں ، گھنٹوں یا دنوں کا جشن منا کر بھول جاتے ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ان کے اعمال وافعال اور کردار کے سبب ان کی مقبولیت بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ ملک و قوم کا سرمایہ بن جاتے ہیں اور ان کی موت و حیات کی تاریخوں پر انھیں یاد کیا جاتا ہے۔ جگر مراد آبادی ایسے مخصوص لوگوں میں سے ایک تھے۔ وہ منجملہ خاصان میخانہ تھے۔ ان کا خاندان مذہبی تھا۔ مولویوں کا گھرانہ تھا۔جگر کے مورث اعلیٰ مولوی محمد سمیع فرخ سیر کے استاد تھے۔ فرخ سیر کی وفات کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے مراد آباد آ گیا۔ جگر کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش ۱۸۹۰ء اور مقام پیدائش بنارس ہے، جو مختلف فیہ ہے۔ کیوں کہ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی جائے ولادت مراد آباد ہی ہے۔شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی کا پورا نام شیخ محمد علی جگر مراد آبادی تھا۔ جگر لکھنؤ کے اسٹینلی اسکول میں پڑھتے تھے ۔ نویں جماعت میں دو مرتبہ فیل ہوئے۔ فیل ہونے کے بعد باضابطہ حصول تعلیم سے دستبردار ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ جمالیات حیات و کائنات کی بصیرت و حسیت رکھنے والا انسان خشک سائنسی صداقت اور ٹکنالوجی و ہندسوں کے فارمولوں و اصولوں سے دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کی نظر صرف خوبصورتی کی جستجو میں رہتی ہے۔ جگر کے ایک جاننے والے عاقل نام کے شخص کا چشموں کا کارخانہ تھا۔ جگر اس کار خانے کے ایجنٹ ہو گئے اور چشمہ فروشی کا پیشہ اختیار کیا۔ جگر کا اپنے کام کے سلسلے میں بنارس سے لے کر اعظم گڑھ تک دورہ ہوتا ۔ وہ اعظم گڑھ مسلم مسافر خانے میں ٹھہرتے پھر ان کی دوستی مرزا احسان بیگ سے ہو گئی اور جگر مرزا صاحب کے گھر ٹھہرنے لگے۔ مرزا صاحب خود اچھے شاعر تھے۔ دونوں میں خوب جمتی تھی۔ جگر اعظم گڑھ کی شعری محفلوں میں بہت مقبول تھے۔ عربی اور فارسی میں اچھی صلاحیت کے مالک تھے۔ اردو کے علاوہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ تیرہ چودہ برس کی عمر میں شاعری کرنے لگے تھے او راپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ داغ دہلوی اور منشی امیر اللہ تسلیم نے جگر کی شاعری کو مزید جلا بخشی ۔ غیر منظم زندگی اور انتشار ذہنی کے باعث نشیب و فراز کے مختلف مراحل سے دو چار ہوئے۔ آگرہ میں وحیدن بیگم سے شادی اور پھر مفارقت کا مرحلہ بھی آیا۔ دوسرا عقد نسیم سے ہوا۔ جگر کا یہ دور بلا نوشی کا دور تھا۔نسیم سے شادی ترک مے نوشی کی شرط پر ہوئی تھی۔ لہٰذا جگر نے بادہ کشی سے توبہ کر لی۔ ان کی زندگی میں ایک انقلاب آیا۔ صوم و صلاۃ کے پابند ہو گئے۔ اصغر گونڈوی کے کہنے پر شاہ عبدالغنی منگلوری سے بیعت کر لی۔ اصغر گونڈوی ، جگر کے محسنوں میں سے تھے لیکن دونوں کے شعری مزاج میں فرق تھا۔ اصغر گونڈوی کا میلان تصوف کی طرف تھا۔ ۱۹۵۳ء میں حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ جگر کی شررنگار اور خمریہ شاعری کاتجزیہ کیا جائے تو ایک دفتر درکار ہے۔ مشاعرے میں ان کی شرکت کامیابی کی ضامن ہوتی۔ ترنم میں شعر پڑھنا اور سامعین کی داد و تحسین اور ’مکرر ارشاد‘ کے ہنگاموں سے محفل مشاعرہ گونج اٹھتی۔ مصرعوں میں لفظوں کا استعمال شگفتہ و شستہ طرز ادا اور روانی سے خیالات و تجربات کی ترسیل میں لمحہ بھر کی رکاوٹ نہیں آتی۔ اسٹیج پر بیٹھے دوسرے شعرا جگر کی مقبولیت سے پریشانی محسوس کرتے۔ پدم بھوشن کا خطاب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند، مجموعہ آتش گل پر ساہتیہ اکادمی کا انعام اور دولت ہند کی جانب سے تاحیات پنشن کا وقار بھی ملا۔
    ’’داغ جگر‘‘،’’ شعلۂ طور‘‘ اور ’’آتش گل‘‘ کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ جگر کے نزدیک حاصل کائنات اور حقیقت کائنات محض حسن ہے۔ اسی لیے حسن و جمال کے دیدار، حسینوں کی عشوہ طرازیوں، پھولوں کی مہک اور بلبل کی چمک میں جگر یکسر گم ہو جاتے ہیں اور ان کا یہ عمل انھیں مجاز کے راستے حقیقت اور صورت سے معنی کے طریق و مسلک پر نہیں لے جاتا بلکہ وہ حسن و جمال سے مسحور اور جلوۂ صدرنگ کے افسوں سے متاثر ہو کر عشق و محبت کا نغمہ تخلیق کرتے ہیں اور درد بھری آواز میں سامعین تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ ’’داغ جگر‘’ اور ’’شعلۂ طور‘‘ کی غزلیں کلاسیکی استعارات و تشبیہات اور تغزل سے بھر پور ہیں، زندگی کا احترام، آدمیت کی قدر اور حسن کی سرشاری و مستی سے مملو ہیں۔غزل، تغزل، کلام میں سوز وگداز، شعر خوانی کا انداز، موسیقیت، نغمہ ریزی اور دل کو چھو جانے والا ترنم جگر کی اصل پہچان ہے۔ تاہم ایسا نہیں کہ ان کی شاعری درس حیات اور نکات اخلاق سے خالی ہے۔جگر کی شاعری کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ان کی شاعری اور زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا دور شراب وشباب اور رندی و مستی کا دور ہے جس میں جگر ذکر حسن و عشق اور بزم مے گساری میں گھرے رہتے۔ ان کاخیال تھا کہ :اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرےتو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرےایسے اسلوب و طرز کی شاعری کرنے والا شاعر امتداد زمانہ کے اثر سے نہیں بچتا۔ آزادی کے بعد کے اثرات، ہجرت، خوں ریزی، قیامت خیز تباہی اور خاک و خون میں تڑپتی انسانیت اور دم توڑتی مشترکہ تہذیب نے جگر کی سرمستیوں کو صدمہ پہنچایا۔آتش گل جگر کے اسی ذہنی تغیر و انقلاب کی تخلیق ہے جو انسانیت سے حددرجہ محبت کی دلیل ہے۔ اسے ہم جگر کے دوسرے دور کی شاعری کہہ سکتے ہیں۔ ایسے ہی ماحول اور ایسی ہی فضا میں جگر کی تڑپ نے پکارا :فکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کلشاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کلسلامت تو، تیرا میخانہ تیری انجمن ساقیمجھے کرتی ہے اب کچھ خدمت دارورسن ساقیجگر نے تقسیم ہند و پاک کے سانحے کو سماجی اور خارجی حقائق کی سچی تصویر مانا اور اسے غزل کے مزاج و فن سے ہم آہنگ کر کے تاریخ کا ایک حصہ بنا دیا :بھری بہار میں تاراجئ چمن مت پوچھخدا کرے نہ پھر آنکھوں سے یہ سماں گزرےکہاں کے لالہ و گل کیا بہار توبہ شکنکھلے ہوئے ہیں دلوں کی جراحتوں کے چمنصیاد پر ظاہر یہ بھی راز نہیں ہےپرواز اسیر پر پرواز نہیں ہےچمن ہی نہیں جس کے گوشے گوشے میںکہیں بہار نہ آئے کہیں بہار آئےدنیااور دنیا کے تمام وسائل ، سہولتیں اور علوم سب کے سب انسان کی خدمت ترقی ، تہذیب اور تکریم و تعظیم کے لیے ہیں کیونکہ انسان تمام مخلوقات میں اشرف مخلوق ہے، اس کی تخلیق احسن ساخت میں کی گئی ہے۔ اس لیے زندگی کا احترام، انسانیت و آدمیت کی قدر کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔ جگر کا سماجی شعور بہت پختہ ہے لیکن انھیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سیاسی پھندوں اور داؤ پیچ سے کوئی لگاؤ نہیں۔ وہ اہل سیاست کے کام نہیں ، محبت کے پیغام میں یقین رکھتے تھے۔جگر نے بالارادہ اردو زبان و ادب کی خدمت نہیں کی، بلکہ ادب برائے حظ و انبساط کے قائل تھے۔ شاعری برائے شاعری، شاعری برائے حسن و عشق اور شاعری برائے زندگی کی ہے۔ ان کے مسلک میں انسان اور زندگی تخلیق کائنات کا محور و مرکز اور مقصد ہے۔ داغ جگر اور شعلۂ طور کی غزلیں بادی النظر میں شعر برائے نشاط کی طرف ذہن کو لے جاتی ہیں لیکن بغور تجزیے کے بعد دیکھا جائے تو ان میں بھی زندگی اور تلازمۂ حیات کی ترجمانی ہوتی ہے کیونکہ ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کا نکتہ ارتکاز ایک ہی ہے۔ انسانیت کی بقا، ترقی، مسرت و حظ نیز تمام زبانوں اور مضامین، خواہ وہ ادب و سائنس ہو یا جدید ٹیکنالوجی سب کا مقصد و منشا سماج کو مسرت بہم پہنچانا ہے۔ ادب کا افادی نظریہ بھی امن و انصاف اور تسکین قلب و خوشی فراہم کرنا ہے۔ دنیا کو ظلمت سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔جگر کو معرفت ذات اور عرفان کائنات کے فرق و امتیاز کا شدت سے احساس ہوا۔ جب وہ صرف حسن و عشق اور شراب و شباب کی شاعری کی مستی میں غرق تھے تو اس وقت بھی وہ انجانے طور پر نہیں بلکہ شعوری طور پر کائنات کی خوبصورتی اور نقوش حیات سے ہم کلام ہوتے تھے۔ کیونکہ غالب کے نزدیک سارے نقوش فریادی ہوتے ہیں لیکن انسان دل فطرت شناس سے محروم ہے۔ سکوت لالہ و گل کی گفتگو سننے کی صفت سے عاری ہے :باہمہ ذوق آگہی ہائے رے پستی بشرسارے جہاں کا جائزہ اپنے جہاں سے بے خبرتسخیر مہر و ماہ مبارک تجھے مگردل میں اگر نہیں تو کہیں روشنی نہیںجگر سچے شاعر ، زندگی کے مزاج شناس اور مبصر تھے۔وہ ہمیں ہیں کہ جن کے ہاتھوں نےگیسوئے زندگی سنوارے ہیںشہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی نے ۹ ستمبر ۱۹۶۰ء کو گونڈہ میں آخری سانسیں لیں۔ غزل کے اس کلاسیکی شاعر کو اردو شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد کیا جاتا رہے گا۔نمونہۂ کلامآدمی آدمی سے ملتا ہے دل مگر کم کسی سے ملتا ہےبھول جاتا ہوں میں ستم اس کےوہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہےآج کیا بات ہے کہ پھولوں کارنگ تیری ہنسی سے ملتا ہےسلسلہ فتنۂ قیامت کاتیری خوش قامتی سے ملتا ہےمل کے بھی جو کبھی نہیں ملتاٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہےکاروبارِ جہاں سنورتے ہیںہوش جب بے خودی سے ملتا ہےروح کو بھی مزہ محبت کادل کی ہمسایگی سے ملتا ہے
    Oحب ہر اک شورشِ غم ضبط فگاں تک پہنچےپھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچےآنکھ تک دل سے نہ آئے نہ زباں تک پہنچےبات جس کی ہے اسی آفت جاں تک پہنچےکیا تعجب کہ مری روح جواں تک پہنچےپہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچےحسن کے نغمے بھی خاموش زباں تک پہنچےاب ترے حوصلے اے عشق یہاں تک پہنچےمیرے اشعار میں جو آگ بھری ہے اے کاش !تجھ کو راس آئے، ترے غم جواں تک پہنچےرہِ عرفاں میں اک ایسا بھی مقام آتا ہےہر یقیں بڑھ کے جہاں وہم و گماں تک پہنچےاُف وہ کیفیتِ غم، آنکھ جسے دیکھ سکے !ہائے وہ درد کی لذت جو زباں تک پہنچےجو زمانے کو برا کہتے ہیں خود ہیں وہ بُرےکاش یہ بات ترے گوش گراں تک پہنچےاِن کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیںمرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچےجلوے بے تاب تھے جو پردہ، فطرت میں جگرخود تڑپ کر مری چشم نگراں تک پہنچے
    Oرکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہنما سے ہمچلتے ہیں بچ کے دور ہر اک نقشِ پا سے ہممانوس ہو چلے ہیں جو دل کی صدا سے ہمشاید کہ جی اٹھے تری آوازِ پا سے ہمیارب نگاہ شوق کو دے اور وسعتیںگھبرا اٹھے جمالِ جہت آشنا سے ہممخصوص کس کے واسطے ہے رحمتِ تمامپوچھیں گے ایک دن یہ کسی پارسا سے ہماو مستِ نازِ حسن تجھے کچھ خبر بھی ہےتجھ پہ نثار ہوتے ہیں کس کس ادا سے ہمیہ کون چھا گیا ہے دل و دیدہ پر کہ آجاپنی نظر میں آپ ہیں نا آشنا سے ہم
    O
    (بشکریہ اردو دنیا، بھارت )

    Welcome, Login to your account.

    Recover your password.

    A password will be e-mailed to you.

    Baaghi TV – باغی ٹی وی | خبریں، تازہ خبریں، بریکنگ نیوز | News, latest news, breaking news

    ؍ستمبر ۱۹۶۰

    جگر مراد آبادی کی شاعری

    شہنشاہِ تغزل، رئیس المتغزلین، ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف، مترنّم لب و لہجے کے مشہور شاعر” جگرؔ مراد آبادی صاحب “ کا یومِ وفات…

    *جگرؔ مراد آبادی*، نام *علی سکندر* تخلص *جگرؔ*۔ ولادت *۶؍اپریل ۱۸۹۰ء مرادآباد (اتر پردیش)* ۔ قرآن پاک ، فارسی اور اردو کی تعلیم اس زمانے کے دستور کے مطابق گھر پر ہوئی۔ ان کے والد *علی نظر* شاعر تھے۔ جگر کے خاندان کے دوسرے اصحاب بھی شاعر تھے،اس طرح جگر کو شاعری ورثے میں ملی ۔چناں چہ جگر کی شعر گوئی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ۱۴ برس کے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے *حیات بخش رسا* کو کلام دکھایا، پھر *حضرتِ داغ* سے رجوع کیا اور کچھ عرصہ *امیر اللہ تسلیم* سے بھی اصلاح لی۔ جگر صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ مختلف اضلاع میں گزرا۔ ان کا پیشہ چشموں کی تجارت تھا۔ *اصغر گونڈوی* کی صحبت نے *جگر* کی شاعری کو بہت جلا بخشی۔ *جگرؔ* مشاعروں کے بہت کامیاب شاعر تھے ۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔بحیثیت انسان وہ نہایت شریف واقع ہوئے تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں *’’پدما بھوشن‘‘* خطاب دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے *جگرؔ* کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ان کے آخری مجموعہ کلام *’’آتِش گل‘‘* پر ان کو ساہتیہ اکیڈمی سے انھیں پانچ ہزار روپیہ کا انعام ملا۔ اور دو سو روپیہ ماہ نامہ وظیفہ مقرر ہوا۔ *’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘* ان کی شاعری کے مجموعے ہیں۔
    شراب ترک کرنے کے بعد ان کی صحت بہت خراب رہنے لگی تھی۔ وہ مستقل طور پر *گونڈہ* میں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ *۹؍ستمبر ۱۹۶۰ء* کو تقریباً صبح ۶بجے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
    *بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:315*

    🦋

    💐 *شہنشاہِ تغزل جگرؔ مراد آبادی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…* 💐

    آج کیا حال ہے یا رب سرِ محفل میرا
    کہ نکالے لیے جاتا ہے کوئی دل میرا

    *نگۂ ناز لے خبر ورنہ*
    *درد محبوب اضطراب ہوا*

    ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش
    شامل کسی کا خونِ تمنا ضرور تھا

    *جگرؔ کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت*
    *شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہوگا برملا ہوگا*

    جب کوئی ذکرِ گردشِ آیام آ گیا
    بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا

    *جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر*
    *عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا*

    شکستِ حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا
    نگاہ نیچی کئے سر جھکا کے لوٹ لیا

    ہر حقیقت کو باندازِ تماشا دیکھا
    خوب دیکھا ترے جلووں کو مگر کیا دیکھا

    کیا جانئے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
    مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

    *حسنِ کافر شباب کا عالم*
    *سر سے پا تک شراب کا عالم*

    پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
    کوئی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں

    شاعرِ فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں
    روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں

    *وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ*
    *جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ*

    محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
    کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں

    *ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں*
    *ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں*

    اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
    سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانا ہے

    *اپنے فروغِ حسن کی دکھلا کے وسعتیں*
    *میرے حدودِ شوق بڑھا کر چلے گئے*

    یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
    یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے

    ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا
    مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

    جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
    وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

    یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
    اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

    آغازِ محبت کا انجام بس اتنا ہے
    جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

    دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
    کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

    مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
    مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

    اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
    ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے

    کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
    ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے

    جان ہے بے قرار سی ، جسم ہے پائمال سا
    اب نہ وہ داغ، وہ جگر، صرف ہے اِک خیال سا

    کچھ ہمی جانتے ہیں لطف تر ے کوچے کا
    ورنہ پھرنے کو تو مخلوقِ خدا پھرتی ہے

    مدت ہوئی اک حادثٔہ عشق کو لیکن
    اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد

    معراجِ شوق کہئے، یا حاصلِ تصوّر !
    جس سمت دیکھتا ہُوں تُو مُسکرا رہا ہے

    دیوانہ وار جان بفشاندن گناہِ من
    بیگانہ وار رخ ننمودن گناہِ کیست؟

    ترجمہ :-

    دیوانہ وار جان لٹانا ہے میرا جُرم
    بیگانہ وار رُخ نہ دکھانا ہے کس کا جُرم؟

    ‏تو نے نہ اٹھایا رُخِ نادیدہ سے پردہ
    دنیا کو تیری حسرتِ دیدار نے مارا

    اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل
    ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

    پچھلی خبر

    شدید رومانی نظم نگاری اور شاعری کے لئے مشہور، ممتاز شاعر” اخترؔ شیرانی صاحب “

    اگلی خبر

    کشمیری عوام حق اور سچ پر ڈٹے رہیں، انہیں کامیابی ضرور ملے گی، وزیراعظم عمران خان

    کورونا وائرس: پاکستان فیشن ویک آئندہ سال 2021 تک کے لئے ملتوی

    ارطغرل غازی نے پاکستان میں مقبولیت کا ایک اور ریکارڈ قائم کرلیا

    سونیا حسین نے علی سیٹھی کو بادشاہ غزل قرار دیا

    امریکہ پھرسے دنیا کی قیادت کے لیے تیار ہے: جوبائیڈن

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

    Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment.

    جگر مراد آبادی کی شاعری

    کشمیر

    مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے

    فوج مخالف قوتوں اوربھارت کا بیانیہ ایک،غداروں کولگام نہ دی توپھرمیرجعفراورمیرصادق پیدا ہوتے رہیں…

    بھارتی دھمکیاں،فوج مخالف قوتوں کےلیےکمک،جنگ نہیں کر سکتااگرہوئی توبھارت میں‌…

    چین یا پاکستان ہجرت کرنے والے کشمیریوں کے خلاف مودی سرکار کا سخت اقدام

    شوبز

    کورونا وائرس: پاکستان فیشن ویک آئندہ سال 2021 تک کے لئے ملتوی

    ارطغرل غازی نے پاکستان میں مقبولیت کا ایک اور ریکارڈ قائم کرلیا

    سونیا حسین نے علی سیٹھی کو بادشاہ غزل قرار دیا

    اداکارہ رباب ہاشم کی شادی کی تقریبات کا آغاز ہو گیا

  • تصاویر گل زیبا پروفایل
  • سائنس و ٹیکنالوجی

    وزیراعظم عمران خان کا سپارکو کےسیٹلائٹ گراوَنڈ اسٹیشن اسلام آباد کا دورہ ،خلائی…

    آئی ٹی ڈپلومیسی سے آپکے موبائل کی جاسوسی تک از طہ منیب

    انٹرنیٹ سے جڑا “اسمارٹ ماسک” آگیا جو میسج بھی بھیجے گا اور آٹھ…

    مکتبہ شاملہ کی نئی ایپ استعمال کرنے کا طریقہ

    ‏کراچی میں PUBG کھیلنے سے نوجوان ذہنی مریض بن گیا

    باغی ٹی وی کرپشن، بددیانتی، جرائم، ظلم و زیادتی اورملک دشمن عناصر کے خلاف ایک مضبوط قوم کی آواز ہے جس کا منشور ملکی مفاد کی بالا دستی اور نظریاتی دفاع ہے۔

    باغی ٹی وی پر شائع ہونے والی تمام خبریں ذرائع سے مصدقہ اور حقائق پر مبنی ہیں۔ کسی بھی خبر کی تردید و توثیق ادارے کی طرف سے بروقت ویب سائٹ پر شائع کر دی جاتی ہے۔ باغی ٹی وی حق اور انصاف کے بول کے ساتھ درستگی اور اصلاح کے صحافتی اصول و ضوابط پر کاربند ایک ادارہ ہے۔
    Visit our privacy policy here

    Welcome, Login to your account.

    Recover your password.

    جگر مراد آبادی کی شاعری

    A password will be e-mailed to you.

    جگر مراد آبادی کی شاعری
    جگر مراد آبادی کی شاعری
    0

    دوره مقدماتی php

    دیدگاهتان را بنویسید

    نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *