Sign up and enjoy FREE unlimited access to a whole Universe of Urdu Poetry, Language Learning, Sufi Mysticism, Rare Texts
عام زندگی میں ہم پھول کی خوشبو اور اس کے الگ الگ رنگوں کےعلاوہ اورکچھ نہیں دیکھتے ۔ پھول کوموضوع بنانےوالی شاعری کا ہمارا یہ انتخاب پڑھ کرآپ کوحیرانی ہوگی کہ شاعروں نے پھول کو کتنے زاویوں سے دیکھا اوربرتا ہے ۔ پھول اس کی خوبصورتی اوراس کی نرمی کو محبوب کے حسن سے ملا کربھی دیکھا گیا ہے اوراس کے مرجھا نے کو حسن کے زوال اوربے ثباتیِ زندگی کی علامت بھی بنایا گیا ہے ۔ پھول کے ساتھ کانٹوں کا کرداراوربھی دلچسپ ہے ۔ کانٹوں کونسبتاً ثبات حاصل ہے اوران کے کردارمیں دوغلہ پن نہیں ۔ ہمیں پتا ہے کہ کانٹے چھب سکتے ہیں اورتکلیف پہنچا سکتے ہیں اس لئے ان سے دوری بنائ جاسکتی ہے لیکن پھولوں کی خوبصورتی کے دھوکے میں آکرہم ان سے قربت بنا لیتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں ۔ یہاں پھول اور کانٹے مختلف انسانی کرداروں کی استعاراتی تعبیر ہیں ۔
لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں
گلاب شاعری
میں نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں
ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا ہے اکثر
لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں
میں چاہتا تھا کہ اس کو گلاب پیش کروں
وہ خود گلاب تھا اس کو گلاب کیا دیتا
کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں
کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں
befriend the thorns for they will be loyal until death
what of these flowers that will wilt with just a burning breath
شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا
آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
اگرچہ پھول یہ اپنے لیے خریدے ہیں
کوئی جو پوچھے تو کہہ دوں گا اس نے بھیجے ہیں
پھول ہی پھول یاد آتے ہیں
آپ جب جب بھی مسکراتے ہیں
پھول کھلے ہیں لکھا ہوا ہے توڑو مت
اور مچل کر جی کہتا ہے چھوڑو مت
خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو
مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی
پھول کر لے نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے
گلاب شاعری
سچ ہے احسان کا بھی بوجھ بہت ہوتا ہے
چار پھولوں سے دبی جاتی ہے تربت میری
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ہمیشہ ہاتھوں میں ہوتے ہیں پھول ان کے لئے
کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں
کئی طرح کے تحائف پسند ہیں اس کو
مگر جو کام یہاں پھول سے نکلتا ہے
سنو کہ اب ہم گلاب دیں گے گلاب لیں گے
محبتوں میں کوئی خسارہ نہیں چلے گا
کچھ ایسے پھول بھی گزرے ہیں میری نظروں سے
جو کھل کے بھی نہ سمجھ پائے زندگی کیا ہے
پھولوں کی تازگی ہی نہیں دیکھنے کی چیز
کانٹوں کی سمت بھی تو نگاہیں اٹھا کے دیکھ
غم عمر مختصر سے ابھی بے خبر ہیں کلیاں
نہ چمن میں پھینک دینا کسی پھول کو مسل کر
کانٹوں پہ چلے ہیں تو کہیں پھول کھلے ہیں
پھولوں سے ملے ہیں تو بڑی چوٹ لگی ہے
رک گیا ہاتھ ترا کیوں باصرؔ
کوئی کانٹا تو نہ تھا پھولوں میں
گلاب شاعری
اپنی قسمت میں سبھی کچھ تھا مگر پھول نہ تھے
تم اگر پھول نہ ہوتے تو ہمارے ہوتے
مہر و مہ گل پھول سب تھے پر ہمیں
چہرئی چہرہ ہمیں بھاتا رہا
چمن کا حسن سمجھ کر سمیٹ لائے تھے
کسے خبر تھی کہ ہر پھول خار نکلے گا
رنگ آنکھوں کے لیے بو ہے دماغوں کے لیے
پھول کو ہاتھ لگانے کی ضرورت کیا ہے
پھولوں کو گلستاں میں کب راس بہار آئی
کانٹوں کو ملا جب سے اعجاز مسیحائی
بہار آئی گلوں کو ہنسی نہیں آئی
کہیں سے بو تری گفتار کی نہیں آئی
The best way to learn Urdu online
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
A three-day celebration of Urdu
This slideshow requires JavaScript.
Enter your email address to follow this blog and receive notifications of new posts by email.
Join 216 other followers
Email Address:
فالو کریں
ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar –
Advertisement
غزل اور نظم دوںوں اصنافِ سخن میں سارہ خان کی تخلیقات ہمارے سامنے ہیں۔
خوب صورت لب و لہجے کی اس شاعرہ کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ تاہم گزشتہ پندرہ برس سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ یوں تو زمانہ طالبِ علمی سے شعر کہہ رہی ہیں، لیکن شاعری کا باقاعدہ آغاز چند سال پہلے ہوا اور ان کی تخلیقات مختلف ادبی پرچوں اور ویب سائٹس کی زینت بنیں۔گلاب شاعری
سارہ خان کی پسندیدہ صنفِ سخن، نظم ہے۔
فیض، ن، م راشد اور محسن نقوی سارہ خان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ان کی ایک نظم آپ کے شعری ذوق کی نذر ہے
“کمی”
گلاب لہجوں میں دل گزیں سے سراب کیوں کر
گلاب لہجوں میں حسرتیں ہیں
گلاب لہجوں میں خواب کیوں کر
گلاب لہجے جو خوشبؤں کی ضمانتوں کے امین ٹھہرے
یہ کیسی ان میں جھلک دِکھی ہے
گلاب لہجوں میں خار کیوں کر۔۔۔۔
یہ کون ہے جو گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے بھر رہا ہے
یہ کون ہے جو گلاب لہجوں میں راکھ بن کے بکھر رہا ہے
گلاب لہجوں پہ نقش کتنی کہانیاں ہیں
خزاں رُتوں میں چمن میں اک آتشیں سماں ہے،
گلاب لہجوں پہ ڈھیر ساری اداسیاں ہیں
گلاب لہجے جو اک زمانے میں سانس لیتے تو گُل کھلاتے
گلاب لہجوں پہ کس کا سایہ پڑا ہے
کیسی ویرانیاں ہیں
گلاب لہجوں میں اِک شکن ہے
گلاب لہجوں میں کیوں تھکن ہے
گلاب لہجوں پہ شامِ ہجراں کا عکس کیوں کر
گلاب لہجوں میں ساعتوں کی نمی چھپی ہے
گلاب لہجوں میں رقص کرتے ہزاروں منظر
مگر جو دیکھو گلاب کی ہی…
گلاب لہجوں میں کچھ کمی ہے!شاعرہ: سارہ خان
سابقہ پوسٹ
آرمی چیف کا دورہ کراچی، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی پر اظہار اطمینان
اگلی پوسٹ
کرونا وائرس، کن ممالک میں زیادہ تباہ کاریاں پھیلا سکتا ہے؟ جانیے
پیٹرول کی بچت کیلئے رہنما اصول، گاڑی مالکان کیلئے اہم معلومات
بھارت کیلئے پروازیں کب تک معطل رہیں گی؟ سعودی ایئر لائن کی وضاحت
ٹک ٹاک کے شوق نے سیکیورٹی گارڈ کی جان لےلی
باغِ جہاں میں پرندوں کے ٹھکانے (تصاویر دیکھیے)
ضرور پڑھیں
پیٹرول کی بچت کیلئے رہنما اصول، گاڑی مالکان کیلئے اہم…
بھارت کیلئے پروازیں کب تک معطل رہیں گی؟ سعودی ایئر لائن کی…
ٹک ٹاک کے شوق نے سیکیورٹی گارڈ کی جان لےلی
باغِ جہاں میں پرندوں کے ٹھکانے (تصاویر دیکھیے)
پاکستان
امریکا نے وزیراعظم عمران خان کا حالیہ کابل کا دورہ خوش…
سابق ن لیگی میئر کے خلاف مقدمہ درج
کراچی کا شوکت خانم اسپتال پاکستان کا سب سے بڑا کینسراسپتال…
پاکستان میں کورونا کی صورتحال سنگین ہونے لگی ، ایک دن میں 42…
وہ جس لباس میں ہو لا جواب لگتا ہے
مجھے وہ پھولوں میں مثل ِگلاب لگتا ہے
وہ گرم جوش میری سرد مہریوں پر بھی
تپش لٹاتا ہوا آفتاب لگتا ہے
چرائی چاند نے اسکی یا اس نے چاند کی ضو
فلک کا روئے زمیں ماہتاب لگتا ہے
بجھی بجھی سی ہے کیوں روشنی ستاروں کی
پڑی ہے چہرے پہ اسکےنقاب لگتا ہے
مجھے بھنور جو ہے اس کی غزال آنکھوں میں
وہ سرخ بادہءِ جامِ شراب لگتا ہےگلاب شاعری
یہ زوق ِ پیاس تو صحرا نورد سے پوچھو
جسے وہ دریا بھی کوئی سراب لگتا ہے
میں دیکھوں آئینہ تو عکس بھی مجھے اسکا
گماں، خیال و تصور یا خواب لگتا ہے
کتابِ زیست اسی پر ہو مشتمل جیسے
میں پیش لفظ وہ پوری کتاب لگتا ہے
اسے دعاؤں میں مانگا ہے اس قدر اے گل
جو نیکیوں پہ ملے وہ ثواب لگتا ہے
سیدہ گلفشاں حق. گل
Gulfi
حسین گلگلاب (زادهٔ ۱۲۷۶ در تهران – درگذشتهٔ ۱۳۶۳ در تهران) گیاهشناس، ادیب، نویسنده، شاعر، مترجم، استاد دانشگاه، نوازنده، موسیقیدان، عکاس و هنرمند ایرانی بود. او به زبانهای فرانسه، انگلیسی، روسی، عربی[۱] و لاتین[۲] تسلط داشت و در زمینه معادلیابی برای واژههای علمی از متخصصان فرهنگستان ایران بود. سرودههای مشهور «ای ایران» و «آذرآبادگان» از جمله کارهای اوست.
حسین گلگلاب در مرداد ۱۲۷۴ خورشیدی در تهران بهدنیا آمد. پدرش ابوتراب خان (اصالتا از زیدون بهبهان، قلعه گل و گلاب) مشهور به مهدی مصورالملک از نقاشان و عکاسان مشهور دوره قاجار بود که در نقاشی روی سنگ مهارت داشت و گفته میشود نقاشیهای روزنامههای دولتی شرف و شرافت از کارهای اوست.[۳] از آنجا که مصورالملک با موسیقیدانان دوران خود دوستی داشت، فرزندش را با موسیقی آشنا کرد و به این ترتیب گلگلاب نواختن تار و سهتار را از آقا حسینقلی[۴] و درویش خان[۵] فرا گرفت و پس از تأسیس مدرسهٔ موسیقی وزیری، از اولین شاگردان آنجا شد و با همکاری کاظم وزیری و علینقی وزیری به کار موسیقی پرداخت و بعدها در آنجا نیز به تدریس پرداخت.[۶] او تحصیلات ابتدایی خود را در مدرسه علمیه نزد استادان آن دوره، عبدالعظیم قریب، میرزا ابراهیم قمی مسعودی، غلامحسین رهنما و شمسالعلما قریب گرکانی گذراند. برای تکمیل تحصیلاتش در دوره متوسطه به دارالفنون رفت و از معلمان فرانسوی دارالفنون زبان فرانسه آموخت. او علاوه بر زبان انگلیسی و فرانسوی، مقدمات زبان روسی را نیز در کلاس اسکندرخان ماردیروسیان فرا گرفت[۷] و پس از پایان تحصیلات در دارالفنون در سال ۱۲۹۵، از سال ۱۲۹۸ به تدریس علوم طبیعی در همان مدرسه پرداخت.حسین گلگلاب از ۱۲۹۸ تا ۱۳۰۷، دوازده جلد کتاب در رشته علوم طبیعی تألیف کرد. در همان زمان به ادامه تحصیل پرداخت و در سال ۱۳۰۱ از مدرسه عالی حقوق در رشته قضایی و علوم سیاسی فارغالتحصیل شد. سپس در سال ۱۳۰۷ تصدی تحقیقات عملی گیاهشناسی در دانشکده پزشکی را بهعهده گرفت و از ۱۳۰۷ تا ۱۳۱۳ در دبیرستان نظام و دانشکده پزشکی گیاهشناسی تدریس کرد.
در سال ۱۳۱۴ طبق مقررات قانون دانشگاه به دریافت درجه دکترا در رشته علوم نائل آمد و به تدریس فیزیولوژی گیاهی در دانشسرای عالی و گیاهشناسی در دانشکده پزشکی پرداخت و در سازمان نوین دانشکده به استادی کرسی بیولوژی گیاهی و ریاست آزمایشگاه مربوطه انتخاب شد. در همان سال پس از اخذ دکترای علوم، به عضویت فرهنگستان ایران و سپس به مدیر کلی فرهنگستان مزبور انتخاب شد. در سال ۱۳۲۴ که ریاست دانشکده پزشکی به عهده پروفسور اوبرلین فرانسوی بود، او به معاونت دانشکده منصوب شد و در سالهای بعد سمت مدیر کلی دبیرخانه دانشگاه و ریاست انجمن بیولوژی ایران را بهعهده گرفت و به منظور مطالعات و تحقیقات علمی به کشورهای اتحاد جماهیر شوروی، بلژیک و انگلستان مسافرت کرد.[۱]
از جمله این سفرها میتوان شرکت در جشنهای دویست و بیست ساله تأسیس فرهنگستان شوروی در خرداد ۱۳۲۴ اشاره کرد که در جواب به دعوت فرهنگستان علوم شوروی انجام شده بود. وی پس از بازگشت در گزارشی فعالیت مراکز و موسسات مختلف و دانشگاهها و کتابخانههای شوروی را شرح داد.[۸]
از ۱۳۲۶ تا ۱۳۵۱ خدمات اجتماعی مختلفی را بهعهده داشت. در ۱۳۴۵ از خدمات دولتی بازنشسته شد و یک سال بعد بهعنوان اولین استاد ممتاز دانشگاه تهران از خدمات علمی و فرهنگی او قدردانی شد. از ۱۳۴۹ تا ۱۳۵۴ رئیس هیئت مؤسسان و رئیس هیئت امنای مدرسه عالی علوم اراک (دانشگاه اراک کنونی) بود که آن را با کمک پرویز شهریاری و عبدالکریم قریب راهاندازی کرده بود.[۹] از اواسط ۱۳۴۹ در دوره دوم فرهنگستان زبان ایران عضو پیوسته بود.حسین گلگلاب بیش از پنجاه قطعه نمایش کلاسیک برای هنرستان هنرپیشگی ترجمه کردهاست. از دیگر فعالیتهای او میتوان به سرودهها و ترانههایی برای کودکان اشاره کرد. او به نقاشی و عکاسی نیز علاقهمند بود،[۱۰] تا آنجا که دوربین عکاسی بر دوش میانداخت و پابهپای رشید یاسمی و روحالله خالقی و استادش علینقی وزیری به تپه ماهورهای طبیعت ایران سر میکشید و گونههای پوشش گیاهی ایران را رصد میکرد. همچنین او نخستین کسی بود که آزمایشگاههای گیاهی ایران را به میکروسکوپ مسلح کرد.[۱۱]وی در حال تهیه فرهنگ نامهای در زمینه گیاهشناسی بود که در ۲۲ اسفند ۱۳۶۳ درگذشت و در بهشت زهرای تهران به خاک سپرده شد. از او سه فرزند به نامهای فرخ گلگلاب (مهندس راه و ساختمان)، هما گلگلاب (دکتر داروسازی و شیمی آلی) و داریوش گلگلاب دکتر و متخصص رادیولوژی به یادگار ماند.
در ۱۳۰۳ علینقی وزیری گروه موسیقیاش را تأسیس کرد و برای ارکستر آن بجز تار معمولی، سه نوع تار با طولهای مختلف طراحی کرد که در واقع یک ارکستر مجلسی چهار بخشی بود که با موسی معروفی، حسین گلگلاب، ادیب، حسنعلی صبا، اسماعیل مهرتاش، صادق خانی و محمد صادق اربابی اجرا میشد.[۱۲] گلگلاب در همان حال که همگام با هنرمندان تراز اول دوران خود در نواختن ساز، نوازندهای ماهر بهشمار میآمد، در سرودن شعر و ترانه هم همردیف بزرگانی چون شیدا، عارف قزوینی و ملکالشعرای بهار ارزیابی میشد.[۲]گلگلاب از شاعران خوب زمان خود بود. از آنجا که هم نت میدانست و هم به موسیقی وارد بود، برخلاف سایر شعرا که سرودن شعر روی آهنگ برایشان مشکل بود، کلمات را با نتهای موسیقی تطبیق میداد. او به تشویق وزیری چندین سرود و تصنیف تهیه کرد که از میان آنها میتوان به سرودهای حماسی «ای ایران» و «آذر آبادگان» با صدای بنان و «خاک ایران» و «پایدار ایران» اشاره کرد. تصنیفهای دیگری مثل «زبان عشق» با صدای عبدالعلی وزیری، «ره عشق» و «بلبل مست» با صدای بنان و همچنین «وصال دوست» که وزیری آن را در پرده اصفهان ساخته از او به یادگار ماندهاست.[۱۳]او بعدها پس از تأسیس دوره عالی موسیقی در مدرسه موسیقی دولتی، برای تدریس در آنجا پذیرفته شد.
حسین گلگلاب سراینده سرود «ای ایران» است. بنا بر روایتی پس از جنگ جهانی دوم و اشغال ایران توسط قوای روس و انگلیس و آمریکا در سال ۱۳۲۳، یک روز زمانی که گلگلاب از خیابان هدایت رد میشدهاست، متوجه حرکات دور از نزاکت بعضی از سربازان خارجی با مردم میشود. به انجمن موسیقی ملی در خیابان هدایت (محله ولیآباد) میرود و با ناراحتی این جریان را برای روحالله خالقی تعریف میکند. خالقی بسیار متأثر میشود. این موضوع انگیزهای میشود تا خالقی آهنگی بسازد و گلگلاب شعرش را بنویسد. حاصل این همکاری سرود «ای ایران» است که نخستین اجرای آن، در ۲۷ مهرماه ۱۳۲۳ در نخستین کنسرت ارکستر انجمن موسیقی ملی در سالن سینما تهران، در خیابان استانبول برای دو شب متوالی برگزار شد. این سرود در همان مجلس سه بار تکرار شد و هر بار شور و هیجانی را در جمع به وجود آورد.[۱۴] استقبال و تأثیر این سرود باعث شد که وزیر فرهنگ وقت، هیئت نوازندگان را به مرکز پخش صدا فرستاد تا صفحهای از آن ضبط و همه روزه از رادیو تهران پخش شود.[۱۵] اجرای دیگر، مربوط به سالهای ۱۳۳۷ تا ۱۳۴۲ در ارکستر بزرگ «گلها» است که غلامحسین بنان، خواننده محبوب این سرود را خواند.[۱۴] سرود «ای ایران» در آواز دشتی ساخته شده و ملودی اصلیاش از برخی از نغمههای موسیقی بختیاری که از فضایی حماسی برخوردارند، وام گرفته شده. از دیگر ویژگیهای آن این است که کلمات بیگانه کمی در آن استفاده شده و بیشتر واژگان آن فارسی هستند.در سالهای پایانی دهه ۶۰ ناصر تقوایی، از حسین سرشار خواننده کلاسیک و اپرا خواست که در فیلمش «ای ایران» نقش معلم سرودی که به دانش آموزانش این سرود را آموزش میدهد، بر عهده بگیرد.
خالقی چندی بعد و تحت تأثیر همین سرود و با شعری از گلگلاب سرودی به نام آذربایجان ساخت که تحت تأثیر اشغال آن منطقه توسط قشون روسیه شوروی بارها اجرا شد.[۱۶]گلاب شاعری
فیلم مستند مرز پرگهر که در سال ۱۳۸۹ به تهیهکنندگی و کارگردانی میلاد درویش و مهندس هومن ظریف رضائیان (روزنامهنگار، مستندساز و کارمند روزنامه اطلاعات) تولید شد، به شرح تفصیلی زندگی، اندیشه و آثار حسین گلگلاب میپردازد و دربارهٔ چگونگی ساختهشدن سرود ملی «ای ایران» با بازماندگان آفرینندگان این سرود به بحث مینشیند. در این فیلم، با خانوادههای غلامحسین بنان، حسین گلگلاب و روحالله خالقی و سایر متخصصان و موسیقیدانان و ترانهسرایان دربارهٔ این سرود گفتگو میشود. همچنین در فیلم مرز پرگهر، پرویز شهریاری دربارهٔ همکاریاش با حسین گلگلاب و عبدالکریم قریب در تأسیس دانشگاه عالی علوم اراک مصاحبه میشود. این فیلم در آبان سال ۱۳۹۰ در جشنواره مستند سینماحقیقت، در سینما فلسطین به نمایش درآمد که پربینندهترین فیلم آن دورهٔ جشنواره شد و نیز جلسه نقد و بررسی فیلم مستند پژوهشی مرز پرگهر در هفدهم بهمن سال ۱۳۹۱ با حضور اکبر عالمی، خسرو سینایی و خانوادهٔ گل گلاب در خانه هنرمندان ایران برگزار شد.[۱۷]
سال ۱۳۱۳ به دستور رضا شاه و به همت محمدعلی فروغی، فرهنگستان ایران تأسیس شد. حسین گلگلاب و کسانی همچون محمود حسابی، علیاصغر حکمت، علیاکبر دهخدا، رشید یاسمی و غلامحسین رهنما از نخستین اعضای فرهنگستان بودند. در ۱۳۱۴ حسین گلگلاب به دلیل تخصص در معادلیابی اصطلاحات رشتههای علمی به عضویت پیوسته فرهنگستان ایران برگزیده شد و در سال ۱۳۱۵ سردبیری فرهنگستان را پذیرفت. او نخستین دبیر فرهنگستان زبان فارسی بود.گلگلاب در وضع واژههای علوم طبیعی، به ویژه گیاهشناسی سهم بهسزایی داشت. او در اینباره میگوید: «بنده حتی قبل از به وجود آمدن فرهنگستان ۲۰۰ تا۳۰۰ لغت ساختم و در کتابهای درسی به کار بردم مثل کاسبرگ، تخمدان، پرچم و…. بعد که فرهنگستان تشکیل شد، کسی با آنها مخالفتی نکرد. خیلیها اصلاً نمیدانستند که این لغات قبلاً وجود نداشتهاست، جزئی از زبان شده و مردم آنها را پذیرفته بودند و در مدارس نیز آنها را بهکار میبرند؛ حتی مخالفان معادلسازی نیز با این لغات مخالفتی نداشتند.»او همچنین خالق واژههای علمی و پرمعنایی مثل قارچ، جلبک و گلسنگ در متون زیستشناسی ایران بود.[۱۸]
آثار نوشتاری علمی گلگلاب متنوع بود و در سطوح مختلف آموزشی مورد استفاده قرار میگرفت. در دورانی که رشتههای تحصیلی در مقطع دبیرستان یا متوسطه در حال شکلگیری بود، کتابهای آموزشی او در رشته طبیعی یا به اصطلاح امروز گروه تجربی، به دبیران دوره طبیعی دبیرستانهای کشور کمک میکرد تا بتوانند دیپلمههایی را که در دهههای بعد در رشتههای مختلف زیرگروه علوم تجربی در دانشگاهها ادامه تحصیل میدادند، آموزش دهند. نثر او یکی از نمونههای درخشان نثر فارسی در کتابهای غیرداستانی است. اما کارهای ادبی او نیز درخششی کمتر از کارهای علمیاش ندارند و سرودههایش از کارهای ماندنی موسیقی ایرانی است و بسیاری او را یکی از بهترین ترانهسرایان ایرانی میدانند.آثار حسین گلگلاب به دو گروه اصلی علمی و هنری تقسیم میشوند. آثار علمی شامل زیرگروههایی نظیر شیمی، فیزیک، جغرافیای طبیعی، فیزیولوژی گیاهی و حیوانیست. آثار هنری نیز شامل موسیقی، شعر، تئاتر و اپراست. او بیش از پنجاه قطعه نمایش کلاسیک برای هنرستان هنرپیشگی نوشت که برخی از این نمایشنامهها در مجلات به چاپ رسد. او همچنین اپرای کارمن و اپرای فاوست را به نظم فارسی مطابق با آهنگهای اصلی ترجمه کردهاست.[۱۹] یک سال پس از درگذشتش، مقالهای با عنوان یادی از حسین گلگلاب در مجله چیستا، شماره سه، سال ۱۳۶۴ به چاپ رسید که در آن به خدمات علمی و آموزشی او اشاره شد، از جمله پایاننامه دکترای او که راجع به نباتات ایران است و خلاصه آن در سال ۱۳۱۳ به چاپ رسیده بود و در آن شش هزار گیاه که در ایران میرویند توصیف شدهبودند.
آثار علمی او در دو بخش کتاب و مقاله از قرار زیر است:
الف: گیاهشناسی
ب: حیوانشناسی
ج: جغرافیا
د: علوم دیگر
الف: گیاهشناسی
ب: تاریخ علم
ج: فرهنگی و واژهشناسی
د: علوم دیگر
0